غزلُ الغزلات 1

1 سُلیما ن کی غزلُ الغزلات۔

پہلی غزل عَورت کاخطاب

2 وہ اپنے مُنہ کے چُوموں سے مُجھے چُومے

کیونکہ تیرا عِشق مَے سے بِہتر ہے۔

3 تیرے عِطر کی خُوشبُو لطِیف ہے۔

تیرا نام عِطر ریختہ ہے۔

اِسی لِئے کُنواریاں تُجھ پر عاشِق ہیں۔

4 مُجھے کھینچ لے ۔ ہم تیرے پِیچھے دَوڑیں گی۔

بادشاہ مُجھے اپنے محلّ میں لے آیا۔

ہم تُجھ میں شادمان اور مسرُور ہوں گی۔

ہم تیرے عِشق کا تذکرہ مَے سے زِیادہ کریں گی۔

وہ سچّے دِل سے تُجھ پر عاشِق ہیں۔

5 اَے یروشلِیم کی بیٹیو!

مَیں سِیاہ فام لیکن خُوب صُورت ہُوں۔

قِیدار کے خَیموں

اور سُلیما ن کے پردوں کی مانِند۔

6 مُجھے مت تاکو کہ مَیں سِیاہ فام ہُوں

کیونکہ مَیں دُھوپ کی جلی ہُوں۔

میری ماں کے بیٹے مُجھ سے ناخُوش تھے۔

اُنہوں نے مُجھ سے تاکِستانوں کی نِگہبانی کرائی

لیکن مَیں نے اپنے تاکِستان کی نِگہبانی نہیں کی۔

7 اَے میری جان کے پِیارے! مُجھے بتا۔

تُو اپنے گلّہ کو کہاں چَراتا ہے

اور دوپہر کے وقت کہاں بِٹھاتاہے

کیونکہ مَیں تیرے رفِیقوں کے گلّوں کے پاس

کیوں ماری ماری پِھرُوں؟

مَرد کا خطاب

8 اَے عَورتوں میں سب سے جمِیلہ! اگر تُو نہیں

جانتی

تو گلّہ کے نقشِ قدم پر چلی جا

اور اپنے بُزغالوں کو چرواہوں کے خَیموں کے پاس

پاس چَرا۔

9 اَے میری پیاری!

مَیں نے تُجھے فِرعو ن کے رتھ کی گھوڑیوں میں سے ایک

کے ساتھ تشبِیہ دی ہے۔

10 تیرے گال مُسلسل زُلفوں میں خُوش نُماہیں

اور تیری گردن موتِیوں کے ہاروں میں۔

11 ہم تیرے لِئے سونے کے طَوق بنائیں گے۔

اور اُن میں چاندی کے پُھول جڑیں گے۔

عَورت کا خطاب

12 جب تک بادشاہ تناوُل فرماتارہا

میرے سُنبُل کی مہک اُڑتی رہی۔

13 میرا محبُوب میرے لِئے دستۂِ مُر ہے

جو رات بھر میری چھاتِیوں کے درمِیان پڑا رہتا ہے۔

14 میرا محبُوب میرے لِئے عین جدّ ی کے انگُورِستان

سے

مہندی کے پُھولوں کا گُچھّا ہے۔

مَر د کا خطاب

15 دیکھ تُو خُوبرُو ہے اَے میری پِیاری! دیکھ تُو

خُوب صُورت ہے۔

تیری آنکھیں دو کبُوتر ہیں۔

عَورت کا خطاب

16 دیکھ تُو ہی خُوب صُورت ہے اَے میرے محبُوب!

بلکہ مرغُوبِ خاطِر ہے۔

ہمارا پلنگ بھی سبز ہے۔

17 ہمارے گھر کے شہتِیر دیودارکے

اور ہماری کڑِیاں صنوبر کی ہیں۔

غزلُ الغزلات 2

1 مَیں شارو ن کی نرگِس

اور وادِیوں کی سوسن ہُوں۔

مَرد کا خطاب

2 جَیسی سوسن جھاڑِیوں میں

وَیسی ہی میری محبُوبہ کُنوارِیوں میں ہے۔

عَورت کا خطاب

3 جَیسا سیب کا درخت بَن کے درختوں میں

وَیسا ہی میرا محبُوب نَوجوانوں میں ہے۔

مَیں نِہایت شادمانی سے اُس کے سایہ میں بَیٹھی

اور اُس کا پَھل میرے مُنہ میں مِیٹھا لگا۔

4 وہ مُجھے مَے خانہ کے اندرلایا

اور اُس کی مُحبّت کا جھنڈا میرے اُوپر تھا۔

5 کِشمِش سے مُجھے قرار دو ۔ سیبوں سے مُجھے تازہ دَم

کرو

کیونکہ مَیں عِشق کی بِیمار ہُوں۔

6 اُس کا بایاں ہاتھ میرے سر کے نِیچے ہے

اور اُس کا دہنا ہاتھ مُجھے گلے سے لگاتا ہے۔

7 اَے یرو شلِیم کی بیٹیو!

مَیں تُم کو غزالوں اور مَیدان کی ہرنِیوں کی قَسم دیتی

ہُوں

کہ تُم میرے پِیارے کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ

جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہے۔

دُوسری غزل عَورت کا خطاب

8 میرے محبُوب کی آواز! دیکھ وہ آ رہاہے!

پہاڑوں پر سے کُودتا اور ٹِیلوں پر سے پھاندتا ہُؤاچلا

آتا ہے۔

9 میرا محبُوب آہُو یا جوان ہرن کی مانِند ہے۔

دیکھ وہ ہماری دِیوار کے پِیچھے کھڑا ہے۔

وہ کِھڑکِیوں سے جھانکتا ہے۔

وہ جھنجریوں سے تاکتا ہے۔

10 میرے محبُوب نے مُجھ سے باتیں کِیں اورکہا

مَرد کا خطاب

اُٹھ میری پِیاری! میری نازنِین! چلی آ۔

11 کیونکہ دیکھ جاڑا گُذر گیا۔

مِینہ برس چُکا اور نِکل گیا۔

12 زمِین پر پُھولوں کی بہار ہے۔

پرِندوں کے چہچہانے کا وقت آ پُہنچا۔

اور ہماری سرزمِین میں قُمریوں کی آواز سُنائی دینے

لگی۔

13 انجِیرکے درختوں میں ہرے انجِیر پکنے لگے۔

اور تاکیں پُھولنے لگِیں۔

اُن کی مہک پَھیل رہی ہے۔

سو اُٹھ میری پِیاری! میری جمِیلہ! چلی آ۔

14 اَے میری کبُوتری جو چٹانوں کے دراڑوں میں

اور کڑاڑوں کی آڑ میں چُھپی ہے!

مُجھے اپنا چِہرہ دِکھا ۔ مُجھے اپنی آوازسُنا

کیونکہ تُو ماہ جبِین اور تیری آواز شِیرِین ہے۔

15 ہمارے لِئے لَومڑیوں کو پکڑو ۔ اُن لَومڑی بچّوں کو

جوتاکِستان خراب کرتے ہیں

کیونکہ ہماری تاکوں میں پُھول لگے ہیں۔

عَورت کا خطاب

16 میرا محبُوب میرا ہے اور مَیں اُس کی ہُوں۔

وہ سوسنوں کے درمِیان چَراتا ہے۔

17 جب تک دِن ڈھلے اور سایہ بڑھے

تُو پِھر آ اَے میرے محبُوب! تُو غزال یا جوان ہرن کی

طرح ہو کرآ

جو باتر کے پہاڑوں پر ہے۔

غزلُ الغزلات 3

1 مَیں نے رات کو اپنے پلنگ پر اُسے ڈُھونڈا جو

میری جان کا پِیارا ہے۔

مَیں نے اُسے ڈُھونڈا پر نہ پایا۔

2 اب مَیں اُٹھوں گی اور شہر میں پِھرُوں گی۔

کُوچوں میں اور بازاروں میں

اُس کو ڈھُونڈُونگی جو میری جان کا پِیارا ہے۔

مَیں نے اُسے ڈھُونڈا پر نہ پایا۔

3 پہرے والے جو شہر میں پِھرتے ہیں مُجھے مِلے۔

مَیں نے پُوچھا کیا تُم نے اُسے دیکھا جو میری جان کا

پِیاراہے؟

4 ابھی مَیں اُن سے تھوڑا ہی آگے بڑھی تھی

کہ میری جان کا پِیارا مُجھے مِل گیا۔

مَیں نے اُسے پکڑ رکھّا اور اُسے نہ چھوڑا

جب تک کہ مَیں اُسے اپنی ماں کے گھرمیں

اور اپنی والدِہ کے خَلوت خانہ میں نہ لے گئی۔

5 اَے یروشلِیم کی بیٹیو!

مَیں تُم کو غزالوں اور مَیدان کی ہرنِیوں کی قَسم دیتی ہُو ں

کہ تُم میرے پِیارے کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ

جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہے۔

تِیسری غزل عَورت کا خطاب

6 یہ کَون ہے جو مُر اور لُبان سے

اور سَوداگروں کے تمام عِطروں سے مُعطّر ہوکر

بیابان سے دُھوئیں کے سُتُون کی مانِند چلا آتاہے؟

7 دیکھو یہ سُلیما ن کی پالکی ہے۔

جِس کے ساتھ اِسرائیلی بہادُروں میں سے

ساٹھ پہلوان ہیں۔

8 وہ سب کے سب شمشِیرزن اور جنگ میں ماہِر ہیں۔

رات کے خطرہ کے سبب سے

ہر ایک کی تلوار اُس کی ران پر لٹک رہی ہے۔

9 سُلیما ن بادشاہ نے لُبنا ن کی لکڑِیوں سے

اپنے لِئے ایک پالکی بنوائی۔

10 اُس کے ڈنڈے چاندی کے بنوائے۔

اُس کی نشِست سونے کی اور گدّی ارغوانی بنوائی

اور اُس کے اندر کا فرش

یروشلِیم کی بیٹِیوں نے عِشق سے مُرصّع کِیا۔

11 اَے صِیُّون کی بیٹیو! باہر نِکلو اور سُلیما ن بادشاہ کو

دیکھو۔

اُس تاج کے ساتھ جو اُس کی ماں نے اُس کے بیاہ

کے دِن

اور اُس کے دِل کی شادمانی کے روز اُس کے سر پر

رکھّا۔

غزلُ الغزلات 4

مَرد کا خطاب

1 دیکھ تُو خُوبرُ و ہے اَے میری پِیاری! دیکھ تُو

خُوب صُورت ہے۔

تیری آنکھیں تیرے نِقاب کے نِیچے دو کبُوتر ہیں۔

تیرے بال بکریوں کے گلّہ کی مانِندہیں

جو کوہِ جِلعاد پر بَیٹھی ہوں۔

2 تیرے دانت بھیڑوں کے گلّہ کی مانِندہیں

جِن کے بال کترے گئے ہوں اور جِن کو غُسل دِیا گیا ہو۔

جِن میں سے ہر ایک نے دو بچّے دِئے ہوں

اور اُن میں ایک بھی بانجھ نہ ہو۔

3 تیرے ہونٹ قِرمزی ڈورے ہیں۔

تیرا مُنہ دِ ل فریب ہے۔

تیری کنپٹِیاں تیرے نِقاب کے نِیچے

انار کے ٹُکڑوں کی مانِند ہیں۔

4 تیری گردن داؤُد کا بُرج ہے جو سِلاح خانہ کے

لِئے بنا

جِس پر ہزار سِپریں لٹکائی گئی ہیں۔

وہ سب کی سب پہلوانوں کی سِپریں ہیں۔

5 تیری دونوں چھاتِیاں دو تَواَم آہُو بچّے ہیں

جو سوسنوں میں چَرتے ہیں۔

6 جب تک دِن ڈھلے اور سایہ بڑھے

مَیں مُر کے پہاڑ اور لُبان کے ٹِیلے پر جا رہُوں گا۔

7 اَے میری پِیاری! تُو سراپا جمال ہے۔

تُجھ میں کوئی عَیب نہیں۔

8 لُبنا ن سے میرے ساتھ اَے دُلہن!

تُو لُبنا ن سے میرے ساتھ چلی آ۔

اَمانہ کی چوٹی پر سے۔

سنِیر اور حرمُو ن کی چوٹی پر سے۔

شیروں کی ماندوں سے

اور چِیتوں کے پہاڑوں پر سے نظر دَوڑا۔

9 اَے میری پِیاری! میری زَوجہ! تُو نے میرا دِل

لُوٹ لِیا۔

اپنی ایک نظر سے ۔ اپنی گردن کے ایک طَوق سے

تُو نے میرا دِل غارت کر لِیا۔

10 اَے میری پیاری! میری زَوجہ! تیرا عِشق کیا خُوب

ہے!

تیری مُحبّت مَے سے زِیادہ لذِیذ ہے

اور تیرے عِطروں کی مہک ہر طرح کی خُوشبُو سے بڑھ

کرہے۔

11 اَے میری زَوجہ! تیرے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے۔

شہد و شِیر تیری زُبان تلے ہیں۔

تیری پوشاک کی خُوشبُو لُبنا ن کی سی ہے۔

12 میری پِیاری ۔ میری زَوجہ ایک مُقفّل باغچہ ہے۔

وہ محفُوظ سوتا اور سر بمُہر چشمہ ہے۔

13 تیرے باغ کے پَودے لذِیذ میوہ دار انار ہیں۔

مہندی اور سُنبُل بھی ہیں۔

14 جٹاماسی اور زعفران۔

بیدمُشک اور دارچِینی اور لُبان کے تمام درخت۔

مُر اور عُود اور ہر طرح کی خاص خُوشبُو۔

15 تُو باغوں میں ایک منبع

آبِ حیات کا چشمہ

اور لُبنا ن کا جھرنا ہے۔

عَورت کا خطاب

16 اَے بادِ شِمال بیدار ہو! اَے بادِ جنُوب چلی آ!

میرے باغ پر سے گُذر تاکہ اُس کی خُوشبُو پَھیلے۔

میرا محبُوب اپنے باغ میں آئے

اور اپنے لذِیذ میوے کھائے۔

غزلُ الغزلات 5

مَرد کا خطاب

1 مَیں اپنے باغ میں آیا ہُوں اَے میری پِیاری!

میری زَوجہ!

مَیں نے اپنا مُر اپنے بلسان سمیت جمع کر لِیا۔

مَیں نے اپنا شہد چھتّے سمیت کھا لِیا۔

مَیں نے اپنی مَے دُودھ سمیت پی لی ہے۔

عَورت کا خطاب

اَے دوستو! کھاؤ پِیو۔

پِیو! ہاں اَے عزِیزو! خُوب جی بھر کے پِیو۔

چَوتھی غزل عَورت کا خطاب

2 مَیں سوتی ہُوں پر میرا دِل جاگتا ہے۔

میرے محبُوب کی آواز ہے جو کھٹکھٹاتا اور کہتاہے

مَرد کا خطاب

میرے لِئے دروازہ کھول میری محبُوبہ! میری پِیاری!

میری کبُوتری! میری پاکِیزہ!

کیونکہ میرا سر شبنم سے تر ہے۔

اور میری زُلفیں رات کی بُوندوں سے بھری ہیں۔

عَورت کا خطاب

3 مَیں تو کپڑے اُتار چُکی اِب پِھر کَیسے پہنُوں؟

مَیں تو اپنے پاؤں دھو چُکی اب اُن کو کیوں مَیلا کرُ و ں ؟

4 میرے محبُوب نے اپنا ہاتھ سُوراخ سے اندرکِیا

اور میرے دِل و جِگر میں اُس کے لِئے جُنبِش ہُوئی۔

5 مَیں اپنے محبُوب کے لِئے دروازہ کھولنے کواُٹھی

اور میرے ہاتھوں سے مُرٹپکا

اور میری اُنگلِیوں سے رقِیق مُرٹپکا

اور قُفل کے دستوں پر پڑا۔

6 مَیں نے اپنے محبُوب کے لِئے دروازہ کھولا

لیکن میرا محبُوب مُڑ کر چلا گیا تھا۔

جب وہ بولا تو مَیں بے حواس ہو گئی۔

مَیں نے اُسے ڈھُونڈا پر نہ پایا۔

مَیں نے اُسے پُکارا پر اُس نے مُجھے کُچھ جواب نہ دِ یا ۔

7 پہرے والے جو شہر میں پِھرتے ہیں مُجھے مِلے۔

اُنہوں نے مُجھے مارا اور گھایل کِیا۔

شہر پناہ کے مُحافِظوں نے میری چادر مُجھ سے چِھین لی ۔

8 اَے یروشلِیم کی بیٹِیو! مَیں تُم کو قَسم دیتی ہُوں کہ

اگر میرا محبُوب تُم کو مِل جائے

تو اُس سے کہہ دینا کہ مَیں عِشق کی بِیمار ہُوں۔

عَورت کا خطاب

9 تیرے محبُوب کو کِسی دُوسرے محبُوب پر کیا فضِیلت

ہے؟

اَے عَورتوں میں سب سے جمیِلہ!

تیرے محبُوب کو کِسی دُوسرے محبُوب پر کیا فَوقِیت ہے

جو تُو ہم کو اِس طرح قَسم دیتی ہے؟

عَورت کا خطاب

10 میرا محبُوب سُرخ و سفید ہے۔

وہ دس ہزار میں مُمتاز ہے۔

11 اُس کا سر خالِص سونا ہے۔

اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوّے سی کالی ہیں۔

12 اُس کی آنکھیں اُن کبُوتروں کی مانِندہیں

جو دُودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بَیٹھے ہوں۔

13 اُس کے رُخسار پُھولوں کے چمن اور بلسان کی

اُبھری ہُوئی کِیارِیاں ہیں۔

اُس کے ہونٹ سوسن ہیں جِن سے رقِیق مُر ٹپکتا ہے۔

14 اُس کے ہاتھ زبرجد سے مُرصّع سونے کے حلقے

ہیں۔

اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جِس پر نِیلم کے

پُھول بنے ہوں۔

15 اُس کی ٹانگیں کُندن کے پایوں پر سنگِ مرمر کے

سُتُون ہیں۔

وہ دیکھنے میں لُبنا ن اور خُوبی میں رشکِ سرو ہے۔

16 اُس کا مُنہ از بس شِیرِین ہے ۔ ہاں وہ سراپا

عِشق انگیزہے۔

اَے یروشلِیم کی بیٹیو!

یہ ہے میرا محبُوب ۔ یہ ہے میرا پِیارا۔

غزلُ الغزلات 6

عَورت کا خطاب

1 تیرا محبُوب کہاں گیا؟

اَے عَورتوں میں سب سے جمِیلہ!

تیرا محبُوب کِس طرف کونِکلا

کہ ہم تیرے ساتھ اُس کی تلاش میں جائیں؟

عَورت کا خطاب

2 میرا محبُوب اپنے بُوستان میں بلسان کی کِیارِیوں

کی طرف گیا ہے

تاکہ باغوں میں چَرائے اور سوسن جمع کرے۔

3 مَیں اپنے محبُوب کی ہُوں اور میرا محبُوب میرا ہے۔

وہ سوسنوں میں چَراتا ہے۔

پانچوِیں غزل مَرد کا خطاب

4 اَے میری پِیاری! تُو تِرضہ کی مانِند خُوب صُورت

ہے۔

یروشلِیم کی مانِند خُوش منظر

اور علَم دار لشکر کی مانِند مُہِیب ہے۔

5 اپنی آنکھیں میری طرف سے پھیرلے

کیونکہ وہ مُجھے گھبرا دیتی ہیں۔

تیرے بال بکریوں کے گلّہ کی مانِندہیں

جو کوہِ جِلعاد پر بَیٹھی ہوں۔

6 تیرے دانت بھیڑوں کے گلّہ کی مانِند ہیں۔

جِن کو غُسل دِیا گیا ہو۔

جِن میں سے ہر ایک نے دو بچّے دِئے ہوں

اور اُن میں ایک بھی بانجھ نہ ہو۔

7 تیری کنپٹِیاں تیرے نِقاب کے نِیچے

انار کے ٹُکڑوں کی مانِند ہیں۔

8 ساٹھ رانیاں اور اسّی حرمیں

اور بے شُمار کُنوارِیاں بھی ہیں

9 پر میری کبُوتری ۔ میری پاکِیزہ بے نظِیر ہے۔

وہ اپنی ماں کی اِکلوتی۔

وہ اپنی والِدہ کی لاڈلی ہے۔

بیٹِیوں نے اُسے دیکھا اور اُسے مُبارک کہا۔

رانِیوں اور حرموں نے دیکھ کر اُس کی سِتایش کی۔

10 یہ کَون ہے جِس کا ظہُور صُبح کی مانِندہے

جو حُسن میں ماہتاب

اور نُور میں آفتاب

اور علَم دار لشکر کی مانِند مُہِیب ہے؟

11 مَیں چلغوزوں کے باغ میں گیا

کہ وادی کی نباتات پر نظرکرُوں

اور دیکُھوں کہ تاک میں غُنچے

اور اناروں میں پُھول نِکلے ہیں کہ نہیں۔

12 مُجھے ابھی خبر بھی نہ تھی کہ میرے دِل نے

مُجھے میرے اُمرا کے رتھوں پر چڑھا دِیا۔

عَورت کا خطاب

13 لَوٹ آ لَوٹ آ اَے شُولِمیت !

لَوٹ آ لَوٹ آ کہ ہم تُجھ پر نظر کریں۔

عَورت کا خطاب

تُم شُولمِیت پر کیوں نظر کروگے

گویا وہ دو لشکروں کا ناچ ہے؟

غزلُ الغزلات 7

مَرد کا خطاب

1 اَے امِیرزادی تیرے پاؤں جُوتِیوں میں کَیسے

خُوب صُورت ہیں!

تیری رانوں کی گولائی اُن زیوروں کی مانِندہے

جِن کو کِسی اُستاد کارِیگر نے بنایا ہو۔

2 تیری ناف گول پِیالہ ہے

جِس میں مِلائی ہُوئی مَے کی کمی نہیں۔

تیرا پیٹ گیہُوں کا انبارہے

جِس کے گِرداگِرد سوسن ہوں۔

3 تیری دونوں چھاتِیاں دو آہُو بچّے ہیں۔

جو تَواَم پَیدا ہُوئے ہوں۔

4 تیری گردن ہاتھی دانت کا بُرج ہے۔

تیری آنکھیں بَیت ربِیم کے پھاٹک کے پاس حسبو ن

کے چشمے ہیں۔

تیری ناک لُبنا ن کے بُرج کی مِثال ہے

جو دمشق کے رُخ بنا ہے۔

5 تیرا سر تُجھ پر کرمِل کی مانِند ہے

اور تیرے سر کے بال ارغوانی ہیں۔

بادشاہ تیری زُلفوں میں اسِیر ہے۔

6 اَے محبُوبہ! عَیش و عِشرت کے لِئے

تُو کَیسی جمِیلہ اور جانفزاہے!

7 یہ تیری قامت کھجُور کی مانِندہے

اور تیری چھاتِیاں انگُور کے گُچّھے ہیں۔

8 مَیں نے کہا مَیں اِس کھجُور پرچڑھُوں گا

اور اِس کی شاخوں کو پکڑُوں گا۔

تیری چھاتِیاں انگُور کے گُچّھے ہوں

اور تیرے سانس کی خُوشبُو سیب کی سی ہو

9 اور تیرا مُنہ بِہترِین شراب کی مانِندہو

عَورت کا خطاب

جو میرے محبُوب کی طرف سِیدھی چلی جاتی ہے

اور سونے والوں کے ہونٹوں پر سے آہِستہ آہِستہ بہہ

جاتی ہے۔

10 مَیں اپنے محبُوب کی ہُوں

اور وہ میرا مُشتاق ہے۔

11 اَے میرے محبُوب! چل ہم کھیتوں میں سَیرکریں

اور گاؤں میں رات کاٹیں۔

12 پِھر تڑکے انگُورِستانوں میں چلیں

اور دیکھیں کہ آیا تاک شگُفتہ ہے اور اُس میں پُھول

نِکلے ہیں

اور انار کی کلِیاں کِھلی ہیں یا نہیں۔

وہاں مَیں تُجھے اپنی مُحبّت دِکھاؤُں گی۔

13 مردُم گیاہ کی خُوشبُو پَھیل رہی ہے

اور ہمارے دروازوں پر ہر قِسم کے تر و خُشک میوے ہیں

جو مَیں نے تیرے لِئے جمع کر رکھّے ہیں اَے میرے

محبُوب!

غزلُ الغزلات 8

1 کاشکہ تُو میرے بھائی کی مانِندہوتا

جِس نے میری ماں کی چھاتِیوں سے دُودھ پِیا!

مَیں تُجھے جب باہر پاتی تو تیری مچِھّیاں لیتی

اور کوئی مُجھے حقِیر نہ جانتا۔

2 مَیں تُجھ کو اپنی ماں کے گھر میں لے جاتی۔

وہ مُجھے سِکھاتی۔

مَیں اپنے اناروں کے رس سے

تُجھے ممزُوج مَے پِلاتی۔

3 اُس کا بایاں ہاتھ میرے سر کے نِیچے ہوتا

اور دہنا مُجھے گلے سے لگاتا۔

4 اَے یروشلِیم کی بیٹِیو! مَیں تُم کو قَسم دیتی ہُوں

کہ تُم میرے پِیارے کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ

جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہے۔ چھٹی غزل عَورت کا خطاب

5 یہ کَون ہے جو بیابان سے

اپنے محبُوب پر تکیہ کِئے چلی آتی ہے؟

عَورت کا خطاب

مَیں نے تُجھے سیب کے درخت کے نِیچے جگایا۔

جہاں تیری وِلادت ہُوئی۔

جہاں تیری والِدہ نے تُجھے جنم دِیا۔

6 نگِین کی مانِند مُجھے اپنے دِل میں لگا رکھ اور تعوِیذ

کی مانِند اپنے بازُو پر

کیونکہ عِشق مَوت کی مانِند زبردست ہے

اور غَیرت پاتال سی بے مُروّت ہے۔

اُس کے شُعلے آگ کے شُعلے ہیں

اور خُداوند کے شُعلہ کی مانِند۔

7 سَیلاب عِشق کو بُجھا نہیں سکتا۔

باڑھ اُس کو ڈُبا نہیں سکتی۔

اگر آدمی مُحبّت کے بدلے اپنا سب کُچھ دے ڈالے

تو وہ سراسر حقارت کے لائِق ٹھہرے گا۔

عَورت کے بھائی

8 ہماری ایک چھوٹی بہن ہے۔

ابھی اُس کی چھاتِیاں نہیں اُٹِھیں۔

جِس روز اُس کی بات چلے

ہم اپنی بہن کے لِئے کیا کریں؟

9 اگر وہ دِیوارہو

تو ہم اُس پر چاندی کا بُرج بنائیں گے

اور اگر وہ دروازہ ہو

تو ہم اُس پر دیودار کے تختے لگائیں گے۔

عَورت کا خطاب

10 مَیں دِیوار ہُوں اور میری چھاتِیاں بُرج ہیں

اور مَیں اُس کی نظر میں سلامتی یافتہ کی مانِند تھی۔

مَرد کا خطاب

11 بعل ہامُو ن میں سُلیما ن کا تاکِستان تھا۔

اُس نے اُس تاکِستان کو باغبانوں کے سپُردکِیا

کہ اُن میں سے ہر ایک اُس کے پَھل کے بدلے

ہزار مِثقال چاندی ادا کرے۔

12 میرا تاکِستان جو میرا ہی ہے میرے سامنے ہے۔

اَے سُلیما ن! تُو تو ہزارلے

اور اُس کے پَھل کے نِگہبان دو سَو پائیں۔

13 اَے بُوستان میں رہنے والی!

رفِیق تیری آواز سُنتے ہیں۔

مُجھ کو بھی سُنا۔

عَورت کا خطاب

14 اے میرے محبُوب! جلدی کر

اور اُس غزال یا آہُو بچّے کی مانِند ہوجا

جو بلسانی پہاڑیوں پر ہے۔

واعِظ 1

زِندگی بے کار ہے

1 شاہِ یروشلِیم داؤُد کے بیٹے واعِظ کی باتیں۔

2 باطِل ہی باطِل واعِظ کہتا ہے باطِل ہی باطِل ۔ سب کُچھ باطِل ہے۔

3 اِنسان کو اُس ساری مِحنت سے جو وہ دُنیا میں کرتاہے کیا حاصِل ہے ؟۔

4 ایک پُشت جاتی ہے اور دُوسری پُشت آتی ہے پر زمِین ہمیشہ قائِم رہتی ہے۔

5 سُورج نِکلتا ہے اور سُورج ڈھلتا بھی ہے اور اپنے طلُوع کی جگہ کو جلد چلا جاتا ہے۔

6 ہوا جنُوب کی طرف چلی جاتی ہے اور چکّر کھا کر شِمال کی طرف پِھرتی ہے ۔ یہ سدا چکّر مارتی ہے اور اپنی گشت کے مُطابِق دَورہ کرتی ہے۔

7 سب ندیاں سمُندر میں گِرتی ہیں پر سمُندر بھر نہیں جاتا ۔ ندیاں جہاں سے نِکلتی ہیں اُدھر ہی کو پِھرجاتی ہیں۔

8 سب چِیزیں ماندگی سے پُر ہیں ۔ آدمی اِس کا بیان نہیں کر سکتا آنکھ دیکھنے سے آسُودہ نہیں ہوتی اور کان سُننے سے نہیں بھرتا۔

9 جو ہُؤا وُہی پِھر ہو گا اور جو چِیزبن چُکی ہے وُہی ہے جو بنائی جائے گی اور دُنیا میں کوئی چِیز نئی نہیں۔

10 کیا کوئی چِیز اَیسی ہے جِس کی بابت کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ تو نئی ہے؟ وہ تو سابِق میں ہم سے پیشتر کے زمانوں میں مَوجُود تھی۔

11 اگلوں کی کوئی یادگار نہیں اور آنے والوں کی اپنے بعدکے لوگوں کے درمِیان کوئی یاد نہ ہو گی۔

مُفکّر کا ذاتی تجربہ

12 مَیں واعِظ یروشلِیم میں بنی اِسرائیل کا بادشاہ تھا۔

13 اورمَیں نے اپنا دِل لگایا کہ جو کُچھ آسمان کے نِیچے کِیا جاتا ہے اُس سب کی تفتِیش و تحقِیق کرُوں ۔

خُدانے بنی آدم کو یہ سخت دُکھ دِیا ہے کہ وہ مشقّت میں مُبتلارہیں۔

14 مَیں نے سب کاموں پر جو دُنیا میں کِئے جاتے ہیں نظرکی اور دیکھو یہ سب کُچھ بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔

15 وہ جو ٹیڑھا ہے سِیدھا نہیں ہو سکتا اور ناقِص کا شُمارنہیں ہو سکتا۔

16 مَیں نے یہ بات اپنے دِل میں کہی دیکھ مَیں نے بڑی ترقّی کی بلکہ اُن سبھوں سے جو مُجھ سے پہلے یروشلِیم میں تھے زِیادہ حِکمت حاصِل کی ۔ ہاں میرا دِل حِکمت اور دانِش میں بڑا کاردان ہُؤا۔

17 لیکن جب مَیں نے حِکمت کے جاننے اور حماقت و جہالت کے سمجھنے پر دِل لگایا تو معلُوم کِیا کہ یہ بھی ہواکی چران ہے۔

18 کیونکہ بُہت حِکمت میں بُہت غم ہے اور عِلم میں ترقّی دُکھ کی فراوانی ہے۔

واعِظ 2

1 مَیں نے اپنے دِل سے کہا آ مَیں تُجھ کو خُوشی میں آزماؤُں گا۔ سو عِشرت کر لے ۔ لو یہ بھی بُطلان ہے۔

2 مَیں نے ہنسی کو دِیوانہ کہا اور شادمانی کے بارے میں کہا اِس سے کیا حاصِل؟۔

3 مَیں نے دِل میں سوچا کہ جِسم کو مَے نوشی سے کیوں کرتازہ کرُوں اور اپنے دِل کو حِکمت کی طرف مائِل رکھُّوں اور کیوں کر حماقت کو پکڑے رہُوں جب تک معلُوم کرُوں کہ بنی آدم کی بِہبُودی کِس بات میں ہے کہ وہ آسمان کے نِیچے عُمر بھر یہی کِیا کریں۔

4 مَیں نے بڑے بڑے کام کِئے ۔ مَیں نے اپنے لِئے عِمارتیں بنائِیں اور مَیں نے اپنے لِئے تاکِستان لگائے۔

5 مَیں نے اپنے لِئے باغچے اور باغ تیّار کِئے اور اُن میں ہر قِسم کے میوہ دار درخت لگائے۔

6 مَیں نے اپنے لِئے تالاب بنائے کہ اُن میں سے باغ کے درختوں کا ذخِیرہ سِینچُوں۔

7 مَیں نے غُلاموں اور لَونڈیوں کو خرِیدا اور نَوکر چاکر میرے گھر میں پَیدا ہُوئے اور جِتنے مُجھ سے پہلے یروشلِیم میں تھے مَیں اُن سے کہِیں زِیادہ گائے بَیل اور بھیڑ بکریوں کا مالِک تھا۔

8 مَیں نے سونا اور چاندی اور بادشاہوں اور صُوبوں کاخاص خزانہ اپنے لِئے جمع کِیا ۔ مَیں نے گانے والوں اورگانے والِیوں کو رکھّا اور بنی آدم کے اَسبابِ عَیش یعنی لَونڈیوں کو اپنے لِئے کثرت سے فراہم کِیا۔

9 سو مَیں بزُرگ ہُؤا اور اُن سبھوں سے جو مُجھ سے پہلے یروشلِیم میں تھے زِیادہ بڑھ گیا ۔ میری حِکمت بھی مُجھ میں قائِم رہی۔

10 اور سب کُچھ جو میری آنکھیں چاہتی تِھیں مَیں نے اُن سے باز نہ رکھّا ۔ مَیں نے اپنے دِل کو کِسی طرح کی خُوشی سے نہ روکا کیونکہ میرا دِل میری ساری مِحنت سے شادمان ہُؤا اور میری ساری مِحنت سے میرا بخرہ یہی تھا۔

11 پِھر مَیں نے اُن سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کِئے تھے اور اُس مشقّت پر جو مَیں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے اور دُنیا میں کُچھ فائِدہ نہیں۔

12 اور مَیں حِکمت اور دِیوانگی اور حماقت کے دیکھنے پرمُتوجِّہ ہُؤا

کیونکہ وہ شخص جو بادشاہ کے بعد آئے گاکیا کرے گا؟ وُہی جو ہوتا چلا آیا ہے۔

13 اور مَیں نے دیکھا کہ جَیسی روشنی کو تارِیکی پرفضِیلت ہے وَیسی ہی حِکمت حماقت سے افضل ہے۔

14 دانِشور اپنی آنکھیں اپنے سر میں رکھتا ہے پر احمق اندھیرے میں چلتا ہے ۔ تَو بھی مَیں جان گیا کہ ایک ہی حادِثہ اُن سب پر گُذرتا ہے۔

15 تب مَیں نے دِل میں کہا جَیسا احمق پر حادِثہ ہوتاہے وَیسا ہی مُجھ پر بھی ہو گا ۔ پِھر مَیں کیوں زِیادہ دانِشور ہُؤا؟ سو مَیں نے دِل میں کہا کہ یہ بھی بُطلان ہے۔

16 کیونکہ نہ دانِشور اور نہ احمق کی یادگار ابد تک رہے گی۔ اِس لِئے کہ آنے والے دِنوں میں سب کُچھ فراموش ہوچُکے گا اور دانِشور کیوں کر احمق کی طرح مَرتا ہے!۔

17 پس مَیں زِندگی سے بیزار ہُؤا کیونکہ جو کام دُنیامیں کِیا جاتا ہے مُجھے بُہت بُرا معلُوم ہُؤا کیونکہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔

18 بلکہ مَیں اپنی ساری مِحنت سے جو دُنیا میں کی تھی بیزار ہُؤا کیونکہ ضرُور ہے کہ مَیں اُسے اُس آدمی کے لِئے جو میرے بعد آئے گا چھوڑ جاؤُں۔

19 اور کَون جانتا ہے کہ وہ دانِشور ہو گا یا احمق؟ بہرحال وہ میری ساری مِحنت کے کام پر جو مَیں نے کِیا اورجِس میں مَیں نے دُنیا میں اپنی حِکمت ظاہِر کی ضابِط ہو گا ۔ یہ بھی بُطلان ہے۔

20 تب مَیں پِھرا کہ اپنے دِل کو اُس سارے کام سے جومَیں نے دُنیا میں کِیا تھا نا اُمّید کرُوں۔

21 کیونکہ اَیسا شخص بھی ہے جِس کے کام حِکمت اور دانائی اور کامیابی کے ساتھ ہیں لیکن وہ اُن کو دُوسرے آدمی کے لِئے جِس نے اُن میں کُچھ مِحنت نہیں کی اُس کی مِیراث کے لِئے چھوڑ جائے گا ۔ یہ بھی بُطلان اور بلایِ عظِیم ہے۔

22 کیونکہ آدمی کو اُس کی ساری مشقّت اور جانفشانی سے جواُس نے دُنیا میں کی کیا حاصِل ہے؟۔

23 کیونکہ اُس کے لِئے عُمربھر غم ہے اور اُس کی مِحنت ماتم ہے بلکہ اُس کا دِل رات کو بھی آرام نہیں پاتا ۔ یہ بھی بُطلان ہے۔

24 پس اِنسان کے لِئے اِس سے بِہتر کُچھ نہیں کہ وہ کھائے اور پِئے اور اپنی ساری مِحنت کے درمِیان خُوش ہو کراپنا جی بہلائے ۔ مَیں نے دیکھا کہ یہ بھی خُدا کے ہاتھ سے ہے۔

25 اِس لِئے کہ مُجھ سے زِیادہ کَون کھا سکتا اور کَون مزہ اُڑا سکتا ہے؟۔

26 کیونکہ وہ اُس آدمی کو جو اُس کے حضُور میں اچھّا ہے حِکمت اور دانائی اور خُوشی بخشتا ہے لیکن گُنہگار کوزحمت دیتا ہے کہ وہ جمع کرے اور انبار لگائے تاکہ اُسے دے جو خُدا کا پسندِیدہ ہے ۔ یہ بھی بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔