1 سُلیما ن کی غزلُ الغزلات۔ پہلی غزل عَورت کاخطاب 2 وہ اپنے مُنہ کے چُوموں سے مُجھے چُومے کیونکہ تیرا عِشق مَے سے بِہتر ہے۔ 3 تیرے عِطر کی خُوشبُو لطِیف ہے۔ تیرا نام عِطر ریختہ ہے۔ اِسی لِئے کُنواریاں تُجھ پر عاشِق ہیں۔ 4 مُجھے کھینچ لے ۔ ہم تیرے پِیچھے دَوڑیں گی۔ […]
Category Archives: غزلُ الغزلات
غزلُ الغزلات 2
1 مَیں شارو ن کی نرگِس اور وادِیوں کی سوسن ہُوں۔ مَرد کا خطاب 2 جَیسی سوسن جھاڑِیوں میں وَیسی ہی میری محبُوبہ کُنوارِیوں میں ہے۔ عَورت کا خطاب 3 جَیسا سیب کا درخت بَن کے درختوں میں وَیسا ہی میرا محبُوب نَوجوانوں میں ہے۔ مَیں نِہایت شادمانی سے اُس کے سایہ میں بَیٹھی اور […]
غزلُ الغزلات 3
1 مَیں نے رات کو اپنے پلنگ پر اُسے ڈُھونڈا جو میری جان کا پِیارا ہے۔ مَیں نے اُسے ڈُھونڈا پر نہ پایا۔ 2 اب مَیں اُٹھوں گی اور شہر میں پِھرُوں گی۔ کُوچوں میں اور بازاروں میں اُس کو ڈھُونڈُونگی جو میری جان کا پِیارا ہے۔ مَیں نے اُسے ڈھُونڈا پر نہ پایا۔ 3 […]
غزلُ الغزلات 4
مَرد کا خطاب 1 دیکھ تُو خُوبرُ و ہے اَے میری پِیاری! دیکھ تُو خُوب صُورت ہے۔ تیری آنکھیں تیرے نِقاب کے نِیچے دو کبُوتر ہیں۔ تیرے بال بکریوں کے گلّہ کی مانِندہیں جو کوہِ جِلعاد پر بَیٹھی ہوں۔ 2 تیرے دانت بھیڑوں کے گلّہ کی مانِندہیں جِن کے بال کترے گئے ہوں اور جِن […]
غزلُ الغزلات 5
مَرد کا خطاب 1 مَیں اپنے باغ میں آیا ہُوں اَے میری پِیاری! میری زَوجہ! مَیں نے اپنا مُر اپنے بلسان سمیت جمع کر لِیا۔ مَیں نے اپنا شہد چھتّے سمیت کھا لِیا۔ مَیں نے اپنی مَے دُودھ سمیت پی لی ہے۔ عَورت کا خطاب اَے دوستو! کھاؤ پِیو۔ پِیو! ہاں اَے عزِیزو! خُوب جی […]
غزلُ الغزلات 6
عَورت کا خطاب 1 تیرا محبُوب کہاں گیا؟ اَے عَورتوں میں سب سے جمِیلہ! تیرا محبُوب کِس طرف کونِکلا کہ ہم تیرے ساتھ اُس کی تلاش میں جائیں؟ عَورت کا خطاب 2 میرا محبُوب اپنے بُوستان میں بلسان کی کِیارِیوں کی طرف گیا ہے تاکہ باغوں میں چَرائے اور سوسن جمع کرے۔ 3 مَیں اپنے […]
غزلُ الغزلات 7
مَرد کا خطاب 1 اَے امِیرزادی تیرے پاؤں جُوتِیوں میں کَیسے خُوب صُورت ہیں! تیری رانوں کی گولائی اُن زیوروں کی مانِندہے جِن کو کِسی اُستاد کارِیگر نے بنایا ہو۔ 2 تیری ناف گول پِیالہ ہے جِس میں مِلائی ہُوئی مَے کی کمی نہیں۔ تیرا پیٹ گیہُوں کا انبارہے جِس کے گِرداگِرد سوسن ہوں۔ 3 […]
غزلُ الغزلات 8
1 کاشکہ تُو میرے بھائی کی مانِندہوتا جِس نے میری ماں کی چھاتِیوں سے دُودھ پِیا! مَیں تُجھے جب باہر پاتی تو تیری مچِھّیاں لیتی اور کوئی مُجھے حقِیر نہ جانتا۔ 2 مَیں تُجھ کو اپنی ماں کے گھر میں لے جاتی۔ وہ مُجھے سِکھاتی۔ مَیں اپنے اناروں کے رس سے تُجھے ممزُوج مَے پِلاتی۔ […]